شادی شدہ عورت کے لئے مسائل

 شادی کے فوراً بعد ہی کچھ تو معاشرے کا پریشر اور سسرال کی خواہش ہوتی ہے، کچھ مشرقی دلہن کے اپنے دل میں بھی بچے کی خواہش فطرتاً اٹھنے لگتی ہے۔ 

لیکن کچھ نئی دلہنوں کے نصیب میں انتظار ہوتا ہے۔ ہر ماہ انتظار! پورا مہینہ امید کے سارے موتی کاسے میں اکٹھے کئے جاتے ہیں اور ایک مخصوص تاریخ پر وہ سارے موتی یک دم بکھر جاتے ہیں۔ آنسو اندر ہی پی لئے جاتے ہیں، کبھی بہہ دینے دیے جاتے ہیں اور بوجھل دل کیساتھ یہ ایام گزار کر امید کے بکھرے ہوئے موتی ہر کونے کھدرے سے اکٹھے کر کے پھر سے پورا مہینہ جمع کیے جاتے ہیں۔ اگلے ماہ پھر یونہی ہوتا ہے۔ 


دعاؤں کا محور بس ایک ہی بن جاتا ہے۔ اولاد! ہمیں اولاد دے دے یا اللہ! اولاد، اولاد، اولاد دے دے۔ کچھ اور مانگنے کو رہ ہی نہیں جاتا۔ 


آگے پیچھے شادی ہوئے جوڑے دو تین بچوں کے والدین بن چکے ہوتے ہیں، اور یہ لڑکی ہر بچے کی پیدائش پر اپنے من کی مراد کا گلا کھونٹ کر رہ جاتی ہے۔ دل میں بسے ڈھیروں ارمان دل میں دبائے دوسروں کی خوشی میں خوش ہونے کا خیال، اپنی محرومی دبانے کے لئے دوسروں کے بچوں کے کپڑوں کی شاپنگ اور باقیوں سے زیادہ خوش ہونے کی کوشش۔ اسکے باوجود کبھی ایسا بھی سننے کو مل جاتا ہے کہ یہ بے اولادی اسکی سزا ہے، یہ ہمارے بچے سے حسد کرتی ہے، جب سے مل کر گئی ہے بچہ چڑچڑا سا ہوگیا۔ یقینا" نظر لگائی ہے۔ بات چاہے اسکی غیر موجودگی میں کہی گئی ہو، "خیر خواہ" یقینی بناتے ہیں کہ یہ بات اس لڑکی تک پہنچ ہی جائے۔ پہلے کی دُکھی وہ تھوڑی سی اور دُکھی ہو جاتی ہے۔ آنسو، وضاحتیں اور مزید شاپنگ۔


ہر آنے والی سالگرہ پر جب سب مبارکباد دیتے ہیں، لڑکی دل ہی دل میں سوچتی ہے اب اٹھائیس، اب تیس، اب پینتیس کی ہو رہی ہوں۔ بچے کی امید کی ڈوری ہاتھ سے سرکتی جا رہی ہے۔ مجھے نہیں منانی سالگرہ۔


ہر شادی، فوتگی، ہر محفل کے لئے یہ موضوع سب کو خوب مل جاتا ہے۔ "تم لوگ بھی اب بچہ لے ہی آؤ بھئی" جیسی بے تکی باتیں سنائی جاتی ہیں۔ گویا بس ابھی یہاں سے نکلیں گے اور بازار سے جا کر لے لیں گے۔ ذرا سا کھلا فراک پہن لیں، دوپٹہ کھول کر اوڑھ لیں تو سوال "کوئی خوشخبری ہے؟" لوگ یہ سوچتے تک نہیں کہ انکار کرتے وقت اس عورت کے دل پر کیا گزرا ہوگا۔


لوگ کہنے لگتے ہیں فلاں کے گھر بیس سال بعد اولاد ہوئی۔ وہ سوچ میں پڑ جاتی ہے کہ بیس سال انتظار؟ یہ مجھے تسلی ہی دی جا رہی ہے نا؟ اسے بتایا جاتا ہے کہ خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔ وہ گھبرا کے رہ جاتی ہے کہ دیر بھی کیوں ہے؟ اسے یہ کیوں بتایا جا رہا ہے کہ خدا کے گھر دیر ہے؟


کچھ عرصے بعد جب سوال ختم ہوتے ہیں تو مشورے شروع ہو جاتے ہیں۔ ٹوٹکوں سے لیکر وظیفوں تک، ڈاکٹروں سے لیکر حکیموں تک۔۔۔ کپل سے زیادہ انکے بچہ نہ ہونے کی فکر کام والی ماسی اور پڑوسن کی ساس کو ہوتی ہے۔ ایسے میں جب عورت ہر ماہ امید اور نا امیدی کے درمیان لڑھک رہی ہوتی ہے، یہ بن مانگے مشورے اور ان چاہے سوال اسکو مزید ڈپریشن کی طرف دھکیلتے ہیں۔ 


یہاں سے شروع ہونے لگتا ہے ڈپریشن اور خود کو وکٹم سمجھنے کا سفر۔


اب یا تو ڈپریشن کو خود پر سوار کر لیں۔ یا کچھ اور کرنے کا سوچیں۔ 


کیوں نہ کچھ اور کر لیں جب تک بے بی نہیں آتا؟

خدا کے واسطے دوسروں کی زندگی عذاب بنانا چھوڑ دیں اولاد دینا یا نہ دینا اللہ کے اختیار میں ہے کسی انسان کے نہیں۔

جو مائیں، بے اولاد خواتین کے سامنے غرور و تکبر کرتی ہیں کہ انہوں نے تو اولاد پیدا کی تو جان لیجیے کہ اولاد کا پیدا ہونا اور نہ ہونا یہ کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں، نہ ہی اولاد کا پیدا کرنا باعث فخر کی بات ہے اور نہ ہی اولاد کا نہ ہونا باعث شرم کی بات ہے کیونکہ عالمین کے اختیارات کا مالک اللہ ہے اللّٰه چاہے تو اولاد والوں سے اولاد لے لے اور چاہے تو بے اولادوں کو اولاد دے دے....... بس کبھی اسکی مخلوق کے آگے غرور نہیں کرنا چاہیے.... 

اللّٰہ پاک جو بھی بے اولاد ہیں ان سب کو نیک صالح اور زندگی والی اولاد دیں۔ آمین ثمہ آمین 

اور جن کی اولادیں ہیں اللّٰه تعالٰی ان کو صحت اور خوشیوں والی زندگی دے۔ آمین ثمہ آمین


سیدہ سعدیہ بخاری 

Comments